justice of Islam

 ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ عبداللہ نامی مسلمان سپین کے شہر قرطبہ کا قاضی تھا۔ اس کے گھر میں اس کی مرحوم بہن کی بیٹی اوراس کا اپنا بیٹا خالد اس کے ساتھ رہتے تھے۔ قاضی عبداللہ صاحب کی اہلیہ کچھ عرصہ پہلےوفات پا چکی تھیں۔ ان دنوں قرطبہ علم وادب کا مرکز تھا۔ یورپ سمیت دور دراز سے لوگ علم حاصل کنے آتے تھے۔ شہر کے لوگ اور حکومت طالب علموں کی کفالت کرنا باعث فخر سمجھتے تھے۔تھیوس نام کا عیسائی بغرض حصولِ علم آیا اور قاضی عبداللہ کی مہربانی پر ان کے ساتھ رہنے لگا۔ قاضی عبداللہ کی بھانجی، بیٹا خالد اور تھیوس تینوں دارالعلوم میں پڑھتے تھے۔ کچھ دنوں بعد تھیوس کو قاضی عبداللہ کی بھانجی سے محبت ہو گئی۔ ایک دن تھیوس نے لڑکی کو اظہار محبت کی تحریر لکھ کراس کے کمرے میں پھینک دی۔ لڑکی نے پڑھ کر ناپسندیدگی سے کمرے کے ایک کونے میں پھینک دی۔اتنے میں خالد اتفاقاََ کمرے میں داخل ہوئے اور ان کی نظر اس کاغذ پہ پڑی تو اٹھا کر پڑھ لیا۔اور اس قدر برہم ہوئے کہ وہاں سے جا کر تھیوس کے کمرے میں اسے تلوار سے قتل کر دیا۔

justice of Islam
justice of Islam

اور خود ہی گرفتاری دے دی۔ سارےشہر میں کہرام مچ گی کیوں کہ خالد ایک نیک اور ہر دل عزیز طالب علم تھا۔ قاضی عبداللہ کی عدالت میں قتل کے کیس کی سماعت شروع ہوئی تو قاضی عبداللہ نے پہلی سماعت پہ سزائے موت کا حکم سنا دیا۔ کیونکہ قاضی عبداللہ ایک دیندار قاضی تھا۔ اسلئے لوگوں کے کہنے پر اس نے خون بہا کو بھی قبول نہ فرمایا اور جواب میں کہا کہ اگر خون بہا اس طرح قبول کر لیا جائے تو ہر امیر عادمی روپیہ دے کر جان چھڑا جائے گا۔جب پھانسی کا دن آیا تو سارے لوگ شہر کی فصیل سے بہر نکل گئے۔ یہاں تک کہ پھانسی لگانے والا جلاد بھی شہر چھوڑ کر چلا گیا۔آخر قاضی عبداللہ نے خود اپنے بیٹے کو پھانسی لگا دیا۔ اور قاضی عبداللہ کے بیٹے خالد نے بھی انصاف کے تقاضے پورے کرنے میں اپنے والد سے پورا تعاون کیا اور پھانسی کا پھندہ خود اپنے گلے میں ڈالا۔

Post a Comment

0 Comments