ahwal-e-Pakistan

 چودہ اگست کو پاکستان آزاد ہوا تو کسی نے قائدِ اعظم محمد علی جناح رحمتہ اللہ علیہ سے یہ سوال کیا کہ پاکستان کا قانون کیا ہو گا۔ تو پاکستان کے سپریم لیڈر قائدِ اعظم محمد علی جناح رحمتہ اللہ علیہ نے جواب میں کہا کہ میں کون ہوتا ہوں پاکستان کا قانون بنانے والا، پاکستان کا قانون تو 14 سو سال پہلے قرآن مجید کی شکل میں موجود ہے۔ اس بات سے صاف پتہ چلتا ہے کہ پاکستان کا قانون قرآن و سنت ہونا تھا۔ لیکن ایسا نہ ہو سکا ۔ جس کے نقصانات کا ہم قلیل جائزہ پیش کرتے ہیں۔

1۔ قائدِ اعظم محمد علی جناح رحمتہ اللہ علیہ کے ساتھ ناروا سلوک:۔ 

ایک دفعہ زیارت میں قائدِ اعظم محمد علی جناح رحمتہ اللہ علیہ اپنی رہائش گاہ بیٹھے تھے کہ کچھ لوگ ان سے ملنے آئے اور کچھ دیر بعد چلے گئے۔ اتنے میں قائدِ اعظم محمد علی جناح رحمتہ اللہ علیہ کی بہن محترمہ فاطمہ جناح آئیں اور بھائی سے مہمانوں کے بارے پوچھا کہ کون لوگ تھے؟ قائدِ اعظم محمد علی جناح رحمتہ اللہ علیہ نے بہن کو جواب دیا کہ یہ میری کیبنٹ کے وزیر تھے۔ پوچھا " کچھ کہنے آئے تھے کیا" تو قائدِ اعظم محمد علی جناح رحمتہ اللہ علیہ نے جواب دیا کہ یہ لوگ دیکھنے آئے تھے کہ " میں اور کتنے دن زندہ رہوں گا" 

2۔ پاکستان کےپہلے وزیر اعظم خان لیاقت علی خان کا سرِ عام قتل:۔

قائدِ اعظم محمد علی جناح رحمتہ اللہ علیہ کے بعد لیاقت علی خان صاحب اغیار کی آنکھوں میں کھٹکے تو ملک کے اندر کچھ ضمیر فروشوں کے ذریعے سے ان کی جان ناحق لے لی گئی۔ لیکن اس سازش کی گہرائی کا کسی کو صحیح اندازہ نہ ہوا۔ دراصل لیاقت علی خان شہید ایک سچے مسلمان اور ملک کے کھرے خیر خواہ تھے۔ جاگیرداروں کے راستے میں رکاوٹ تھے۔ اور پاکستان کی ترقی کا سبب تھے اسلئے کفار کو ایک آنکھ نہ بھائے۔ تو جاگیرداروں اور کفار کے گٹھ جوڑ سے راستے سے ہٹا دیے گئے۔ اللہ شہید کے درجات بلند کرے۔

3۔ صدر ایوب خان صاحب:۔ صدر صاحب ناجائز طریقے سے حکومت پر قابض ہوئے۔ اس وجہ سے وہ ایک اچھے منتظم کے ساتھ حکومت کو طول دینے کے لیے اغیار کے کسی حد تک مطیع رہے۔ 1965 کی جنگ اس کا ثبوت ہے۔ اور ثبوت محترم ممتاز مفتی کی کتاب "لبیک" سے ملاحظہ کریں۔ ضلع خوشاب کے رہنے والے ایک ایڈوکیٹ صاب کے ایوب خان کو لکھے خط سے ممتاز مفتی ذکر کرتے ہیں۔

ایڈوکیٹ صاحب ،صدر ایوب خان کو لکھتے ہیں، "میں آپ کو خط لکھنے پر مجبور ہوں۔ چونک آپ کو خط لکھنے کی ڈیوٹی مجھ پر عائد کر دی گئی ہے۔یقین جانئے جسقدر میرا خط موصول کرنا آپ کو ناگوار گزرے گا۔ اسی قدر یہ امر میرے لئے ناگوار ہے کہ آپ کو خط لکھوں"

1965 کی جنگ کے بارے میں اڈوکیٹ صاحب:۔ خبردار سیزفائر نہ کیا جائے مگر بہ امر مجبوری صرف چند گھنٹوں کے لئے۔ لیکن صدر صاحب مزید جنگ لڑنا نہ چاہتے تھے۔

4۔ دھرتی دو لخت :۔ 1971 میں پاکستان کے دو ٹکڑے محض اسلئے ہو گئے کہ اس دن شیخ مجیب اور ذوالفقار بھٹو نے 14 سو سال پہلے بیعت سقیفہ میں انصار المہاجرین کی طرح دین و ملت کے لئے قربانی کی طرح قربانی نہ دی بلکہ دونوں نے لالچ کا مظاہرہ کیا ۔ 

بعد میں اور آج کل ہمارے اونپر آہستہ آہستہ واضع ہوتا جا رہا ہے کہ کفار عالَم ہمارے ملک میں خطرناک حد تک داخل ہیں۔ آج ہمارا نظام تعلیم کچھ ایسا ہے۔ کہ یہاں سے فارغ وتحصیل یورپ کا فطری غلام ہے۔ اور اس قدر غلامی میں کھو چکا ہے کہ ایک سابق وزیراعظم کو ہندو اور مسلمان ایک ہی قوم لگتی ہے۔ اور اس کا نام نواز شریف ہے۔ بقول اس کے وہ وہی کھاتا ، پیتا ہے جو ہندو کھاتے پیتے ہیں۔ بہرحال الحمدلللہ ہم تو اس سے اتفاق نہیں کرتے۔

5۔ عدالت:۔ 2015 کے بعد آج 2022 اکتوبر تک کسی عدالت کی طرف سے سزائے موت پر عمل درآمد نہیں ہوا۔ قاتل کو کسی نہ کسی اوچھے ہتھکنڈے سے رہا کر دیا جاتا ہے۔اونپر سے وہ پرانا خاندانی نظام بھی ٹوٹ چکا ہے جو قاتل کو مقامی قانون کے ذریعے سزا دینے کے قابل تھا۔اب قتل سے نچلے جرائم مثلاََََََ چوری چکاری تو جیسے جائز وحلال کر دی گئی ہے۔چور خود سربراہ ہیں، چوری کرتے ہیں اور ملک کا قانون بدل دیتے ہیں تاکہ پکڑے نہ جائیں۔گویا بے شرمی و ڈھٹائی کا زور ہےاور عبرت کا نشان کمزور ہے۔ اس وقت ایک جہول کا سماں تاری ہے۔ اب ملک کو کوئی غیبی طاقت قائم کیے ہوئے ہے۔ شائد اسلئے کہ ان دنیاداروں کے لئے قدرت کی طرف سے کوئی خاص عذاب برپا ہونے والا ہے۔ 

"مصیبت کے وقت مومن کو جس کلمے کے پڑھنے کا حکم ہے یہی وقت ہے کہ پڑھ لیا جائے "انا الللہ و انا الیہِ راجِعون

Post a Comment

0 Comments