Top Article/عشق نبیﷺ کی اہمیت

 

نام آرٹیکل : عشق نبیﷺ کی اہمیت

مصنف : محمد جاوید

تاریخ: 2024-03-07

"حَضرت خالِد بِن وَلید رَضِی اَللہ تعالٰی عَنہُ"

     یہ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالٰی عنہُ کا دور تھا کہ حضرت خالدبن ولیدرضی اللہ تعالٰی عنہُ، فارس کی مہم پہ نکلے ہوئےتھے۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالٰی عنہُ کا تعلق قریش کےایک قبیلےبنوسلیم سےتھا۔ عراق کےقریب اَجنا دَین کےمقام پرحَق وباطل کی فوجیں آمنے سامنےتھیں۔ مسلمان لشکرکی تعداد ''بارہ ھزار'' اور سپہ سالار سیفٌ من سیوفُ اللہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالٰی عنہُ تھے اور آتش پرست فارسیوں کی تعداد نوے ھزار تھی۔

عشق نبیﷺ
عشق نبیﷺ کی اہمیت

   جنگ شروع ہونے سے پہلے کافروں نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالٰی عنہُ کو قتل کرنےکا منصوبہ بنایا۔ جب اس منصوبے کا علم حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالٰی عنہُ کو ہوا تو آپ رضی اللہ تعالٰی عنہُ نے اپنی زبان سے یہ کلمات کہے کہ میں ان کی ہڈیاں توڑوں گا۔      تاریخ گواہ ہے کہ جنگ شروع ہونے سے پہلے فرداً فرداً مقابلہ ہوتا تھا، سب سے پہلا مقابلہ جنابِ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالٰی عنہُ اور کفارکی طرف سے ایک دیو قامت شخص کے درمیان ہوا۔ اس شخص کوحکومتِ فارس کی طرف سے "ھزار مرد"کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ یعنی ھزار مرد، ایک ھزار جنگجوؤ کا مقابلہ کر سکتا تھا۔

    جب مقابلہ شروع ہوا تو تلواریں ایک دوسرے سے ٹکرانے لگیں۔ دونوں بڑھ چڑھ کر وار کر رہے تھے۔ ایک طرف آگ کا بجاری جری جوان تھا تو دوسری طرف اللہ المالکُ المک کی تلوار، جناب خاتمُ النِّبیین، سید الانبیاءِ والمُرسلین حضرت محمدِ مُصطفٰیﷺ کا جلیل القدر صحابی حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالٰی عنہُ تھا۔

   ایک دوسرے پر تابڑ توڑ حملے ہونے لگے۔ پھراچانک دونوں کی تلواریں ہوا میں بلند ہوئیں اور ایک دوسرے سے ٹکرا گئیں۔ اور دونوں کے ہاتھ سے تلواریں زمیں پر گِر گئیں۔ دونوں ایک دوسرے سے بغیر تلوار کے گتھم گتھا ہو گئے۔ حضرت خالد رضی اللہ تعالٰی عنہُ نے اپنے بازو فارسی کی بغلوں سے گزار کراس کی پیٹھ پر اپنے دونوں ہاتھوں سے گرفت باندھ لی۔

   اب حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالٰی عنہُ ، فارسی کو اپنے بازوؤں کی جکڑ سے اپنی طرف کھینچتے گئے۔ جوں ہی گرفت تنگ ہوتی گئی ایک لمحہ ایسا آیا کہ فارسی کی پسلیاں ٹوٹنا شروع ہو گئیں اور اس طرح فارسی جو ھزار مرد کہلاتا تھا۔ میدانِ جنگ میں موت کی نیند سو گیا۔

       "حضرت جبرائیل علیہِ السلام کا واقعہ"

ایک دفعہ حضرت جبرائیل علیہِ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلِہ وسلم کے حضور اپنے من میں یہ خیال لیے ہوئے،کہ وہ نبی کریمﷺ سے عمر میں بڑے ہیں' کھڑے تھے۔

  اس پر جناب خاتمُ النِّبیین، سید الانبیاءِ والمُرسلین حضرت محمدِ مُصطفٰی ﷺ نے فرمایا، اے جبرئیل ذرہ یہ تو بتاؤ تمھاری عمر کیا ہے' تو حضرت جبرئیل امین علیہِ السلام نےعرض کی، یا سید البشرﷺ مجھے زیادہ تو معلوم نہیں صرف اتنا جانتا ہوں کہ ایک ستارہ ایسا ہے جو ستر ھزار سال بعد طلوع ہوتا ہے۔ میں نے وہ ستارہ اپنی یاد میں کوئی ستر ھزار مرتبہ دیکھا ہے۔ میری عمر کا اندازا آپ جنابﷺ خود کر لیں۔

   توپیارے آقا،دکھیوں کے سہارا اور ہمارے دلوں میں بسنے والے نبی کریم ﷺ نے فرمایا، اے جبرائیل اگراس ستارے کا نوراب دیکھو تو پہچان لو گے؟،آپﷺ نے اپنے سرِاقدس سے امامہ مبارک ہٹایا توپیشانی مبارک پہ وہی نور دیکھا گیا۔

"حاصلِ تحریر"

  ایک حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ جسے مسلمانوں کے معاملات میں دلچسپی نہیں وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ اللہ تعالٰی نے یہ کائنات اپنے نبی حضرت محمدِ مُصطفٰیﷺ کی محبت میں تخلیق کی ہے۔ کرہِ ارض پرموجود ایک ملک پاکستان کا عمران خان نامی سربراہ، ساڑھے تین سال مسلسل وزیراعظم کی کرسی سے اور بیرونِ ملک مختلف موقعوں پر اللہ کے برگزیدہ پیغمبرﷺ کا ذکر بلند کرتا رہا ہے۔ اس کی حکومت کے بعد آج تک وزیراعظم کی کرسی سے آپﷺ کا ذکر نہیں ہوا۔ قارئینِ کرام مذکورہ بالا صحابہ کرام رضوان اللہ کے واقعات سے آپ کو اندازہ ہو گیا ھو گا کہ اللہ تعالٰی اپنے نبیﷺ اور ان کے غلاموں کی آخرکار مدد ضرور کرتا ہے۔

  اب اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ دو شخص ہیں ان میں ایک نبی کریمﷺ کا ذکر کرتا ہے اور دوسرے اس کرسی پر جو امانت ہے اللہ کی طرف سے، عیاشی کرتے ہیں۔ ان کے درمیان اللہ ضرور فرق کرے گا انشاءاللہ۔ اگرآپ سرسری طورپرپاکستانی سیاست کا جائزہ لیں توعمران خان اورکَرپٹ مافیا کےدرمیان اللہ رب العزت گزرتے شب و روز فرق ڈالتا جا رہا ہے۔

  اب یہ بات روزِ روشن کی طرح ظاہر ہو چکی ہے کہ پاکستان کی سیاست کے لئے اللہ رب العزت نے ''ذکرِمُصطفٰیﷺ" کا پیمانہ مقرر کر دیا ہے۔ اب حکومت وہی چلا پائےگا جو "ذکرمُصطفٰیﷺ" کے پیمانے پر پورا اترے گا، ورنہ حکومت کی کرسی سوائے ضلالت کے کچھ ثابت نہ ہوگی۔  

اس آرٹیکل میں اگر مصنف سے کوئی غلطی سرزد ہوئی ہے تواللہ رب العزت سے معافی کا طلب گار ہوں۔ اور اس کے کمینٹ بکس میں آپ قارئین آگاہ کر دیں تو پہلی فرست میں درستگی کروں گا۔ انشاءاللہ

Post a Comment

0 Comments